أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں الہ کی کتاب (20) کا ایک حصہ ملا، انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردے، پھر ان کی ایک جماعت اس سے اعراض کرتے ہوئے لوٹ جاتی ہے
یہودی علماء: جو تورات کا کچھ نہ کچھ علم رکھتے تھے مگر کتاب میں تحریف کرنا انکی عادت بن چکی تھی۔تورات میں شادی شدہ مرد اور عورت پر زنا کی سزا رجم موجود تھی مگر جب کوئی مالدار آدمی یا شریف و معزز آدمی زنا کا ارتکاب کرتا تو یہ مختلف حیلوں سے ان کی سزا ساقط کردیتے اور کمزور آدمیوں پر حد جاری کردی جاتی۔ بعد میں انھوں نے ایک درمیانی راہ نکال لی۔ کہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہویا بڑا سب کو یکساں سزا دی جائے اور وہ سزا یہ تھی کہ اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے بستی کے گرد پھیرایا جائے، دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا ہی ایک واقعہ ہوا جس میں ایك مالدار یہودی نے ایک عورت سے زنا کیا، اور وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ ان کا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا۔ خیال تھا کہ یہ سزا سے بچ جائیں گے آپ نے یہودی علماء سے پوچھا ’’تم اللہ کی کتاب میں ایسے لوگوں کی کیا سزا پاتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے سارے شہر میں پھیراتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام یہود کے علماء میں سے تھے اور اسلام لاچکے تھے۔ رسول اللہ سے کہا کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں انھیں کہیں کہ اللہ کی کتاب (تورات) لائیں چنانچہ تورات لائی گئی۔ پڑھنے والے نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپا دیا۔ عبداللہ بن سلام کے کہنے پر آپ نے ہاتھ اٹھانے کو کہا۔ نیچے رجم کی آیت تھی۔‘‘ جب علماء کی چوری پکڑی گئی تو وہ ازروئے ندامت وہاں سے چلے گئے اس آیت میں ایسے ہی یہودی علماء کا کردار بیان ہوا ہے ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کروادیا۔ (مسلم: ۱۶۹۹)