وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا
اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا (٨) بھیجے سب کھانا کھاتے تھے، اور بازاروں میں چلتے تھے، اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے باعث آزمائش بنایا ہے (تاکہ دیکھیں) کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کا رب سب کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت و بیوپار سے کیا مطلب؟ اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں رکھتے تھے۔ کھانا پینا ان کے ساتھ لگا ہوا تھا، تجارت و کسب معاش بھی وہ کیا کرتے تھے یہ سب چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنی عنایت خاص سے انھیں وہ پاکیزہ اوصاف، نیک خصائل، عمدہ اقوال، ظاہر دلیلیں، اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا، ہر دانا وبینا مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کرے اور ان کی سچائی کو جان لے۔ سورئہ یوسف میں ارشاد ہے: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ﴾ (یوسف: ۱۰۹) ’’یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے، سب شہروں میں رہنے والے مرد ہی تھے۔‘‘ سورئہ انبیاء میں ارشاد ہے: ﴿وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ﴾ (الانبیاء: ۸) ’’ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں۔ اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔‘‘ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیتے ہیں، یہ خطاب صرف مسلمانوں کو ہے، یعنی تمہاری آزمائش یہ ہے کہ تم لوگ کافروں کے ان ناجائز اعتراضات، ان کے استہزاء اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرتے ہو، جب کہ اس میں تمہارے لیے کئی مصلحتیں اور حکمتیں موجود ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہو جائیں۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لیے نبیوں کو عموماً معمولی حالت میں رکھتا ہے۔ ورنہ اگر انھیں بکثرت دنیا دیتا تو مال کے لالچ میں بہت سے سچے جھوٹے ان کے ساتھ مل جاتے۔ صحیح مسلم (۲۸۶۵) شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے لوگوں کو آزمانے والا ہوں۔ اور فرمایا: ’’اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے۔‘‘ مسند احمد میں ہی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی اور بندہ بننے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا۔ (مسند احمد: ۲/ ۲۳۱)