وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا
اور کافروں نے کہا، اس رسول (٥) کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا گیا ہے تاکہ اس کے ساتھ وہ بھی لوگوں کو ڈراتا۔
کفار کا یہ جاہلانہ اعتراض بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لیے آتا جاتا کیوں ہے؟ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو اس کے دعوے کی تصدیق کرتا، لوگوں کو دین کی طرف بلاتا اور عذاب الٰہی سے آگاہ کرتا۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَوْ لَا اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ﴾ (الزخرف: ۵۳) ’’اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے، یا اس کی امداد کے لیے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے۔‘‘ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کفار نے کہا تھا کہ اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا، کہ یہ خود آرام سے اپنی زندگی بسر کرتا، اور دوسروں کو بھی دیتا یا کسی باغ کا مالک ہی ہوتا جس سے اس کی گزر بسر ہوتی رہتی۔ جادو شدہ آدمی کے پیچھے لگے ہو: یعنی اے پیغمبر! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی اور بہتان تراشی کرتے ہیں چنانچہ کبھی کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے اور کبھی مسحور ومجنون اور کبھی کذاب وشاعر کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں۔ اور کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کو اعتماد نہیں۔ اور جن کے پاس ذرہ بھی عقل وفہم ہے وہ ان باتوں کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہو جاتے ہیں، انھیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے۔