وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ (٣١) بنائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنایا تھا، اور جس دین کو ان کے لیے پسند کیا ہے اسے ثابت و راسخ کردے گا، اور ان کے خوف و ہراس کو امن سے بدل دے گا، وہ لوگ صرف میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد کفر کی راہ اختیار کریں گے، وہی لوگ فاسق ہوں گے۔
اس آیت سے بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ یا خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام اور عمل صالحہ کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا چلے گی اور بیت اللہ کا آکر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (بخاری: ۳۵۹۵) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا، پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی۔‘‘ (مسلم: ۲۸۸۹) حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی اور فارس وشام اور مصر و افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرایا، لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، لہٰذا جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ اعمال صالحہ کون سے ہیں؟: اب سوال یہ ہے کہ آیا اللہ کا وعدہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ہی مخصوص تھا یا بعد کے مومنوں کے لیے بھی ہے؟ تو اس کا جواب اسی آیت میں مذکور ہے کہ یہ وعدہ مومنوں کے لیے کیوں نہ ہوگا؟ لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں مندرجہ ذیل اوصاف پائے جائیں: وہ سچے مومن ہوں، اعمال صالحہ بجا لائیں، نظام نماز وزکوٰۃ قائم کریں، اچھے کاموں کا حکم دیں، برے کاموں سے روکیں، مقصد زندگی صرف اللہ کے دین یا نظام خلافت کا قیام ہو، ان کی زندگیاں کلیتاً شرک سے پاک ہوں، صرف اللہ سے ڈرنے والے اور اسی پر توکل کرنے والے ہوں اور تفرقہ بازی سے بچیں چنانچہ اگر مومن ان اوصاف کو اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ ان سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرے۔ فاسق کون ہیں؟: یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے مومنوں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے وعدہ اور پکی خوشخبری کے بعد بھی ان کا ساتھ نہ دے اور کفر ونفاق کی راہ اختیار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔