سورة النور - آیت 51

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مومنوں کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا (٢٩) جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردے تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی اور اسے مان لیا، اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی مومنوں کی نظر منافقوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات پر نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اپنا تمام تر مفاد اس بات میں سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل وجان سے اطاعت کی جائے وہ قرآن وحدیث سنتے ہی اور اس دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا، یہ کامیاب، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی، انصاری اور انصاروں کے ایک سردار ہیں، انھوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی، آسانی میں بھی، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسروں کو دیا جا رہا ہو، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ، کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا، کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا۔ (ابن کثیر: ۳/ ۶۲۹) ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی، اللہ کی، اس کے رسول کی، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی میں ہے۔ (مسند احمد ۳/۶۳۰)