وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اور کافروں کے اعمال کسی چٹیل میدان میں سراب (چمکتا ہوا ریت) کے مانند ہیں، جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں پاتا، اور وہاں اللہ کو پاتا ہے جو اس کے اعمال کا پورا حساب اسے چکا دیتا ہے، اور اللہ بڑا تیز حساب لینے والا ہے۔
دو قسم کے کافر: یہ دو مثالیں دو قسم کے کافروں کی ہیں۔ پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو خود بھی کافر ہیں اور دوسروں کو بھی کفر کی طرف بلاتے ہیں پھر اپنے آپ کو ہدیت پر بھی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں اور وہ اعمال جنھیں وہ نیکیاں سمجھ کر کرتے ہیں جیسے صدقہ و خیرات، صلہ رحمی بیت اللہ کی تعمیر اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: جس طرح کسی ریگستان میں پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے اور جب وہ گرم ریت کا میدان طے کرتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اُسے وہاں کچھ نہیں ملتا، اور وہ سخت مایوس اور درماندہ ہو جاتا ہے، یہی حال ایسے کافروں کا ہے کہ موت کا وقت ان کے لیے سراب کی طرح ہوتا ہے، وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر و نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں ان کے اعمال کا کچھ بدلہ نہ ملے گا اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔ صحیحین میں ہے کہ یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر( علیہ السلام ) کی، کہا جائے گا جھوٹے ہو، اللہ کا کوئی بیٹا نہیں، اچھا اب بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آ رہا ہے؟ تم وہاں کیوں نہیں جاتے؟ اب انھیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے، جس پر جاری پانی کا دھوکا ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے۔ (مسلم: ۱۸۳، بخاری: ۴۵۸۱) حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی: حساب کتاب کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ خود موجود ہو گا، اور وہ ایک ایک عمل کا حساب لے گا، لیکن ان کا کوئی عمل قابل ثواب نہیں نکلے گا۔ (تفسیر طبری)