وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور تم میں جو مرد بغیر بیوی کے اور جو عورتیں بغیر شوہر کے ہوں ان کی شادی (٢٠) کردو، اور اپنے نیک ایماندار غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کردو، اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار بنا دے گا، اور اللہ بڑی کشادگی والا، خوب جاننے والا ہے۔
وَاَنْکِحُوْ الْاَیَامٰی، اَیَمَّ کی جمع ہے۔ اَیَمَّ ایسی عورت کو کہا جاتا ہے۔ جس کا خاوند نہ ہو جس میں کنواری، بیوہ، مطلقہ تینوں آ جاتی ہیں اور ایسے مرد کو بھی اَیَمَّ کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔ ایسے سب افراد کے نکاح کر دو۔ آیت میں خطاب ولیوں سے ہے کہ نکاح کر دو یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو کہ نکاح کرنے والے مرد اور عورت ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوئی بھی عورت جو ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ (ترمذی: ۱۱۰۲) مجرد اور غلام لونڈی کے نکاح کر دو: معاشرے کو فواحش سے پاک کرنے اور طہارت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی فرد خواہ عورت ہو یا مرد بےزوج نہ رہے۔ یعنی جن کی بیویاں فوت ہو چکی ہوں یا وہ ان کو طلاق دے چکے ہوں اور مجرد رہتے ہوں اور وہ عورتیں بھی جو بیوہ یا مطلقہ ہوں اور مجرد رہتی ہوں۔ نیز ان میں کنوارے مرد اور کنواری عورتیں بھی شامل ہیں جن کی بلوغت کے بعد تادیر شادی نہ ہوئی ہو۔ ایسے ہی افراد کے لیے اولیاء کو یہ حکم دیا جا رہا ہے وہ ان کا نکاح کر دیں۔ چنانچہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: علی! تین کاموں میں دیر نہ کرنا (۱) فرض نماز جب اس کا وقت ہو جائے۔ (۲) جنازہ جب موجود ہو تو اسے دفن کرنے میں۔ (۳) اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (بر، ہمسر) مل جائے۔ (ترمذی: ۱۷۱) لونڈی اور غلاموں کے ذکر میں صالحین کا لفظ استعمال ہوا ہے جو یہاں دو مطلب ادا کر رہا ہے ایک یہ کہ ان میں ازدواجی زندگی بنانے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسا نہ ہو کہ نکاح کے بعد وہ ڈھیلے پڑ جائیں، اور ان کا سارا بوجھ مالک پر پڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک ہوں اور پاک سیرت رہنا چاہتے اور فحاشی اور بدکاری سے بچنا چاہتے ہوں۔ غرض جو بھی صورت ہو ان کے مالکوں کو چاہیے کہ ان کے نکاح کے لیے ممکن حد تک کوشش کریں۔ اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی بنا دے گا۔ محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے کہ نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے۔ ایک حدیث میں آتا ہے: ’’تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے (۱) نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔ (۲) مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو۔ (۳) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ (نسائی: ۳۱۲۲، ترمذی: ۱۶۵۵) حدیث میں پاک دامنی کے لیے جب تک شادی کی استطاعت حاصل نہ ہو جائے نفلی روزے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے اسے اپنے وقت پر شادی کر لینی چاہیے، اس لیے کہ اس سے آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت ہو جاتی ہے، اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ کثرت سے نفلی روزے رکھے۔ روزے اس کی جنسی خواہش کو قابو میں رکھیں گے۔ (بخاری: ۵۰۶۶)