يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ سود کو گھٹاتا (373) ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا
دو رویے جنھیں رب نا پسند کرتا ہے ۔ (۱)گنہگار انسان۔ (۲)ناشکرا انسان ۔ یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ رقم موجودہے لیكن پھر بھی وہ اپنے محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ نہ اسے قرض دینا چاہتا ہے نہ صدقہ، بلکہ اسکے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعے کھینچنا چاہتا ہے حالانکہ یہ زائد مال اللہ کا فضل تھا اور اسے صدقہ یا قرض دے کر اللہ کے فضل کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر اس نے سود پر دے کر نہایت بدعملی اور گناہ کی بات کی۔ صدقات کو نشوونما دیتا ہے: 100روپے سود پر دیکر 115وصول کرلیے۔ انسان سمجھتا ہے کہ مال بڑھ گیاحالانکہ یہ بڑھا نہیں گھٹ گیا کیوں مال حرام ہوگیا۔ صدقات بڑھتے ہیں، صدقہ کرنے سے ایک دوسرے کے لیے ایثار پیدا ہوتا ہے، باہمی تعاون بڑھتا ہے اخوت کا جذبہ اُبھرتا ہے۔مالدار طبقہ غریب لوگوں کے لیے ٹھنڈی چھا ؤں بن جاتا ہے۔ اور اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ معاشرے کے لوگ برابر ہوجاتے ہیں عمر بڑھتی ہے، رزق میں برکت، مال میں برکت اور دل کو اطمینان ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ جو بندہ اپنے مومن بھائی کی مدد کرتا ہے رب اس کی اس وقت مدد کرے گا جب وہ پھنسا ہو گا یعنی قیامت کے دن۔(بخاری: ۱۴۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بھلائی صدقہ ہے۔(بخاری: ۶۰۲۱) ناشکرے کو پسند نہیں کرتا: ہمیں شکریے کے طور پر صدقہ کرنا چاہیے، اللہ نے ہمیں دیا ہے ہم اللہ کو راضی کرنے کے لیے اللہ کے بندوں پر خرچ کریں۔ گنہگار انسان: جن لوگوں نے سود کو تجارت جیسا کہا یہ گناہ کا کام ہے سود خور معاشرے کا خون چوس لیتا ہے جانتا ہے جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ وہ جو تیرے دل میں کھٹک پیدا کرے ۔(مسلم: ۲۵۵۳) سود خور نے محنت نہیں کی، دوسروں کے مال پر بیٹھ گیا صدقہ دینے والا اور سود لینے والے کا انجام یکساں نہیں ہوتا۔ انسان کو آخرت کا اجر چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے صدقات نہیں كرتا۔ سود خور: دنیا میں فائدہ اٹھا لیتا ہے۔