سورة النور - آیت 11

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک جن لوگوں نے (عائشہ پر) تہمت لگائی (٦) ہے، وہ تم ہی میں کا ایک چھوٹا گروہ ہے، تم لوگ اس بہتان تراشی کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ اس میں تمہارے لیے خیر ہے، ان میں سے ہر آدمی کو اپنے کیے کے مطابق گناہ ہوگا اور ان میں سے جس نے اس افترا پردازی کی ابتدا کی ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہاں آیت نمبر ۱۱ سے لے کر آیت نمبر ۲۰ تک افک کے واقعہ سے متعلق دس آیات مذکور ہیں۔ جو اس سورت کا شان نزول بنیں۔ ابتدا میں تہمت، قذف زنا کے احکام اور سزا بتانے کے بعد اس واقعہ کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہے۔ اس کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی گئی: ((وَ الَّذِیْنَ جَاءُوْا بِالْاِفْکِ)) یعنی یہ جو کچھ افواہیں پھیلیں اور قصے گھڑے گئے سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ واقعہ افک میں ملوث ہونے والے مسلمان اور ان پر حد قذف، یہ کون لوگ تھے؟: اس کی تفصیل خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنیے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آیت میں ((وَ الَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ)) سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول (رئیس المنافقین) ہے۔ (بخاری: ۴۱۴۱) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے مسطح بن اثاثہ اور حسان بن ثابت، تیسرا عبداللہ بن ابی سلول منافق تھا جو کرید کرید کر پوچھتا، پھر اس پر حاشیے چڑھاتا تھا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور ((وَ الَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ)) سے وہ حمنہ بنت جحش مراد ہیں۔ (عبداللہ بن ابی منافق کے علاوہ تینوں پر حد قذف لگی تھی)۔4(ترمذی: ۳۱۸۱، ابو داؤد: ۴۴۷۴) افک سے مراد: وہ واقعہ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کر دیا۔ مختصراً یہ واقعہ یوں ہے کہ حکم حجاب کے بعد غزوہ بنی المصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہودج بھی، جو خالی تھا، اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا اس کے اندر ہی ہوں گی اور وہاں سے روانہ ہو گئے، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئی ہوئی تھیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا۔ تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہو گا تو تلاش کے لیے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد صفوان بن معطل اسلمی رضی اللہ عنہ آ گئے جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی پیچھے رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں۔ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انھیں دیکھتے ہی ’’ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا اور سمجھ گئے کہ قافلہ غلطی سے یا بے علمی میں حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے انھیں اپنے اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جا ملے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آتے دیکھا تو اس موقعہ کو غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے کہا، کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مطعون کر دیا، درآنحالیکہ دونوں ان باتوں سے یکسر بے خبر تھے۔ بعض مخلص مسلمان بھی منافقین کے اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ مثلاً حضرت حسان، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم (اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے ایک مہینے تک، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے براء ت نازل نہیں ہوئی، سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لاعلمی میں اپنی جگہ بے قرار و مضطرب رہیں۔ (بخاری: ۴۷۵۰) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ افک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا کر دینا۔ اس واقعہ میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو ثنا و تعریف کی مستحق تھیں۔ عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں، لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن و تشنیع اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ اسے تم برا نہ سمجھو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے: یعنی اس سے ایک تو تمہیں کرب و صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت سے ان کی عظمت و شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہو گیا۔ علاوہ ازیں اہل ایمان کے لیے اس میں عبرت و نصیحت کے اور کئی پہلو بھی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ام المومنین آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے محبت سے پیش آتے رہے اور حضور علیہ السلام نے آپ کے سوا کسی باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۷۵۳)