الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
جو لوگ اپنے اموال (371) رات میں، اور دن میں، خفیہ طور پر، اور دکھلا کر خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا
اس آیت میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جارہی ہے۔ (۱) رات دن خرچ کرو۔ (۲) افضل صدقہ تو پوشیدہ ہے۔ لیکن اگر رات دن ایک ہی کام ہو تو کیسے چھپ سکتا ہے۔ (۳) اجر یعنی بدلہ ملے گا۔ (۴)خوف اور غم نہیں ہوگا۔ (۵)صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رات دن خرچ کرنا ہے۔ (۶) جیسے سمندر میں وسعت ہے اسی طرح اعلیٰ مقاصد کے لیے مال لگایا جائے تو اس کے بیشمار فوائد تمام انسانیت کو پہنچتے ہیں۔ انسانوں کے لیے برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (۸) اجر کثیر اس کے رب کے پاس ہے۔ (۹) اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے بُری خصلتیں مٹ جاتی ہیں۔ (۱۰) اللہ کے ہاں مقبول انسان بن جاتا ہے۔ (۱۱) کھل جانے پر دوسروں کو ترغیب ملتی ہے۔ دنیا میں اجر: عمر میں اضافہ، رزق میں برکت اور دل كو سکون ملتا ہے۔ آخرت میں انجام: خالص نیت پر اللہ کی رضا ملتی ہے۔ دنیا میں خوف کہ کہیں مال چوری نہ ہوجائے ضائع نہ ہوجائے، دوسرا یہ غم کہ مال بڑھتا کیوں نہیں، مال کم کیوں ہورہا ہے۔ مال کی محبت والا کسی کا ہمدرد نہیں رہتا خودغرض بن جاتا ہے ۔ بخیل ہوجاتا ہے یہ سوچتا ہے کہ ہر کسی کی میرے مال پر نظر ہے، جو مال کو انسانیت کی بھلائی کے لیے خرچ کرتے ہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت لباس پہنائے گا۔ اللہ تعالیٰ اُسے جنت کا لباس پہنائے گا ۔ (۲) جو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اللہ جنت میں پھل کھلائے گا۔ پانی پلائے گا۔ جنت کی مہروالی شراب پلائے گا۔ ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اس كا مال تو وہی ہے جو اس نے كھا پی لیا۔ باقی مال تو وہی اچھا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ (مسلم: ۷۶۰۹)