سورة المؤمنون - آیت 100

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں وہاں جاکر عمل صالح کروں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک لفظ ہے جسے وہ کہہ رہا ہے (اسے دوبارہ بھی توفیق عمل نہیں ہوگی) اور وہ لوگ اپنی موت کے بعد قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہیں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پس یہ ہے برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے۔ مِنْ وَّرَآئِہِمْ کے معنی کیے گئے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان۔ وہ نہ تو صحیح طور پر دنیا میں ہیں کہ کھائیں پئیں، نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے پورے بدلے میں آ جائیں۔ بلکہ بیچ بیچ میں ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: ﴿وَ مِنْ وَّرَآىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ﴾ (ابراہیم: ۱۷) ’’ان کے آگے بہت سخت عذاب ہے۔‘‘ برزخ میں قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا۔ جیسے کہ ترمذی (۱۰۷۱) کی حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں۔ یہ درمیان کی زندگی جو قبر میں، یا پرندے کے پیٹ میں یا جلا ڈالنے کی صورت میں مٹی کے ذرات میں گزرتی ہے۔ برزخ کی زندگی ہے۔ انسان کا یہ وجود جہاں بھی ہو اور جس شکل میں بھی ہو گا بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہو گا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا جائے گا یا دریاؤں میں بہا دیا گیا ہو گا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔