بَلْ أَتَيْنَاهُم بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
بلکہ ہم ان کے پاس سچی بات (٢٧) یعنی قرآن) لے کر آئے ہیں اور وہ بیشک جھوٹے ہیں ( کہ اسے اگلے لوگوں کی کہانیاں کہتے ہیں)۔
سابقہ آیات میں تین باتوں کا اعتراف کرنے سے مشرکین پر حجت قائم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہر طرح کا تصرف و اختیار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے معبودوں کا بھی مالک اللہ ہی ہے اور وہ بھی ایسے ہی اللہ کے مملوک ہیں جیسے کائنات کی دوسری اشیاء اور مخلوقات، اور مملوک کبھی مالک کے اختیارات میں شریک نہیں ہو سکتا، یہی وہ حق بات ہے، جو ہم نے انھیں بتائی ہے اور جس کا اعتراف وہ خود کر رہے ہیں اور ان کا غلط گو ہونا ظاہر کر دیا کہ یہ شریک بنانے میں جھوٹے ہیں اور ان کا جھوٹ خود ان کے اقرار سے ظاہر و باہر ہے۔ جیسے کہ سورت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے کی کوئی سند نہیں۔ صرف باپ دادا کی تقلید پر ضد ہے اور وہ یہی کہتے بھی تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی پر پایا تھا، لہٰذا ہم ان کی تقلید نہیں چھوڑیں گے۔