قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے میرے پیغبر ! آپ ان سے پوچھیے اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور اس میں رہنے والوں کا مالک کون (٢٦) ہے؟۔
خدا تعالیٰ ہی معبود واحد ہے: اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت، خالقیت، تصرف اور ملکیت کا ثبوت دیتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ معبود برحق صرف وہی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے محترم پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین سے دریافت فرمائیں تو وہ صاف لفظوں میں اللہ کے رب ہونے کا اقرار کریں گے اور اس میں کسی کو شریک نہیں بتائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے جواب کو لے کر انھیں قائل کریں کہ جب خالق و مالک صرف اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں تو پھر معبود بھی تنہا وہی کیوں نہ ہو؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے۔ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے مملوک جانتے تھے لیکن انھیں مقرب الٰہی سمجھ کر اس نیت سے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ ہمیں بھی مقرب الٰہی بنا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے پوچھیے کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان تمام چیزوں کا مالک و خالق کون ہے؟ فوراً کہیں گے کہ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ۔ اب پھر تم ان سے کہو کہ اس اقرار کے بعد بھی تم اتنا نہیں سمجھتے کہ عبادت کے لائق بھی وہی ہے کیونکہ خالق و رازق بھی وہی ہے۔ پھر پوچھو اس بلند و بالا آسمان کا مالک کون ہے، اس کی مخلوق کا خالق کون ہے؟ جو عرش جیسی زبردست چیز کا رب ہے جو مخلوق کی چھت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ کی شان بہت بڑی ہے۔ اس کا عرش آسمانوں پر اس طرح ہے‘‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے قبے کی طرح بنا کر بتایا۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۷۲۶) ایک اور حدیث میں ہے: ’’ساتوں آسمان، زمین اور ان کی کل مخلوق کرسی کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کسی چٹیل میدان میں کوئی حلقہ پڑا ہو اور کرسی اپنی تمام چیزوں سمیت عرش کے مقابلے میں بھی ایسی ہی ہے۔‘‘ (ابن کثیر: ۳/ ۵۲۷) مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آسمان و زمین بمقابلہ عرش الٰہی ایسے ہیں جیسے کوئی چھلا کسی چٹیل وسیع میدان میں پڑا ہو۔ الغرض اس سوال کا جواب بھی وہ یہی دیں گے کہ آسمان و عرش کا رب اللہ ہے۔ تو تم کہو کہ پھر تم اس کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرتے اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کر رہے ہو؟