بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ یہ لوگ ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی اگلے لوگوں نے کی تھی۔
کفار مکہ سے جب بدوی لوگ پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے؟ تو وہ کہہ دیتے۔ لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں، یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور یہ بات وہ اس لیے کہتے تھے کہ انبیاء کی بنیادی اور اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خود بھی تو وہی پرانی گھسی پٹی بات دہرا رہے ہیں جو ان کے آبا و اجداد انبیاء کی مخالفت میں کہتے چلے آئے ہیں کہ ’’جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا پھر ہمیں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟‘‘ دلیل کے ساتھ انھیں کوئی نیا جواب میسر نہیں آ رہا، پھر کیا ان کے اقوال بھی پرانے افسانے ہی نہیں؟ جو محض تقلید آباء کے طور پر کہے جاتے ہیں۔