سورة المؤمنون - آیت 76

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا، لیکن وہ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے اور نہ وہ گریہ و وزاری کرتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جرائم کی سزا پانے کے باوجود نیک نہ بن سکے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کی برائیوں کی وجہ سے انھیں سختیوں میں مبتلا بھی کیا۔ لیکن تاہم نہ تو انھوں نے اپنا کفر چھوڑا، نہ اللہ کی طرف جھکے، بلکہ کفر و ضلالت پر اڑے رہے، نہ ان کے دل نرم ہوئے نہ یہ سچے دل سے ہماری طرف متوجہ ہوئے نہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ سخت عذاب: سخت عذاب سے مراد قحط سالی کا وہ عذاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ جب ابتدائے اسلام میں کفار مکہ نے مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر مصائب ڈھانا شروع کیے اور یہاں تک مخالفت کی کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور ان کے حق میں بددعا کی اور فرمایا: ’’یا اللہ! ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام والے قحط کے سات سال مسلط کر۔‘‘ (بخاری: ۴۸۲۴) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو گئی تو ان پر قحط کا عذاب آ گیا۔ بارشیں رک گئیں، باہر سے غلہ آنا بھی رک گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ مردار، ہڈیاں اور خون تک کھانے پر مجبور ہو گئے، لوگ بھوکوں مرنے لگے اور بھوک کی وجہ سے اتنے کمزور ہو گئے کہ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو انھیں دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ دخان میں صراحت سے مذکور ہے۔ بالآخر ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا: تم تو رشتہ جوڑنے کی تاکید کرتے رہتے ہو اور ہم تمہاری ہی برادری ہو کر بھوکوں مر رہے ہیں۔ ہمارے لیے اللہ سے رحم کی دعا کرو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اللہ نے رحم کر دیا، بارشیں بھی شروع ہو گئیں اور باہر سے غلہ بھی آنا شروع ہو گیا اور بھلے دن آ گئے، لیکن پھر کفار سب باتیں بھول گئے اور پہلے کی طرح مسلمانوں کو دکھ دینا شروع کر دیا۔