سورة المؤمنون - آیت 73

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ بے شک انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدھی راہ سے مراد: یعنی وہ ایسی موٹی موٹی باتیں ہیں جو ہر پیغمبر پر وحی کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں کوئی ایچ پیچ نہیں، کوئی پیچیدگی اور ابہام نہیں۔ ان کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں جو ایک دیہاتی اور بدو کو بھی متاثر کر دیتے ہیں۔ مثلاً ایک بدو سے کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے؟ کہنے لگا: ’’ہاں ہے!‘‘ پوچھنے والے نے دوبارہ سوال کیا: ’’بھلا کیسے؟‘‘ بدو کہنے لگا: ’’اگر ہم راہ میں کوئی اونٹ کی مینگنی پڑی دیکھیں تو ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں سے یقیناً کوئی اونٹ گزرا ہے۔ اسی طرح جب ہم اس کائنات کا اتنا وسیع کارخانہ دیکھتے ہیں تو لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا بنانے والا ضروری کوئی ہونا چاہیے۔