سورة المؤمنون - آیت 66

قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہماری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھی تو تم اپنی ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پھر ان کا ایک اور بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے وہ کہ یہ میری آیتوں کے منکر تھے، انھیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے۔ توحید کا انکار کرتے تھے۔ شرک پر عقیدہ رکھتے تھے، حکم تو بلند و برتر اللہ کا ہی چلتا ہے۔ یہ عذاب دراصل ان کے اپنے ہی اعمال کی شامت کا نتیجہ ہوتا ہے جب انھیں اللہ کی آیات سے نصیحت کی جاتی تھی اور برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تب تو وہ ایسی باتوں کو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے اب جب پانی سر سے چڑھ گیا تو پھر چیخنے چلانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ قرآن کو مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے تو کبھی کہانت وغیرہ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہتے، کبھی جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا کہتے، کبھی مجنون بتلاتے یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں ہذیان بکتے ہو۔ بے ہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو جن میں کوئی بھلائی نہیں۔ (فتح القدیر)