يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اے میرے پیغبرو ١! پاکیزہ چیزیں (١٣) کھاؤ اور رنیک عمل کرو بیشک میں تمہارے کرتوتوں کو خوب جانتا ہوں۔
رسولوں کو پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم: پاکیزہ چیزیں وہ ہیں جنھیں شریعت نے حلال قرار دیا ہو۔ ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اسی لیے حرام کہا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ گو خبائث خور قوموں کو اپنے ماحول اور عادت کے لحاظ سے ان میں ایک گونہ لذت محسوس ہوتی ہو۔ عمل صالح: عمل صالح وہ ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے موافق ہو، نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا سمجھیں۔ کیونکہ لوگوں کو تو بدعات بھی بہت اچھی لگتی ہیں بلکہ اہل بدعت کے ہاں جتنا اہتمام بدعات کا ہے اتنا فرائض اسلام اور سنن و مستحبات کا بھی نہیں ہے۔ حلال کھانے کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اکل صالح آسان اور عمل صالح انسان کو اکل حلال پر آمادہ اور اسی پر قناعت کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ صحیح بخاری میں ہے۔ کہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے۔ جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے: ((یَاْکُلُ مِنْ کَسْبِ یَدِہٖ)) ’’وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔‘‘ (بخاری: ۲۰۷۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قراریط کے عوض چراتا رہا ہوں۔‘‘ (بخاری: ۲۲۶۲) کسب حلال کی اہمیت: کسب حلال اور حرام سے اجتناب اس قدر اہم حکم ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال سے پہلے ذکر فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کی کمائی حرام کی ہو تو اس کے نیک اعمال بھی قبول نہیں ہوتے۔ یعنی اگر کسی نے کسب حلال میں حرام کی آمیزش کی ہو تو میں اسے خوب جانتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہارے اعمال میں اللہ کی رضامندی اور خلوص کا حصہ کتنا ہے۔ احترام و تکریم کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو محنت کر کے حلال روزی کھاتے ہیں چاہے روکھی سوکھی ہی ہو۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حرام کمائی والے کا صدقہ قبول فرماتا ہے نہ اس کی دعا ہی۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱۵)