أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں، اس میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں، اور اس کا بڑھاپا آجائے، اور اس کے کمزور و ناتواں بچے ہوں، اور اچانک وہ باغ ایک بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو جو اسے جلا دے، اللہ اسی طرح تمہارے لیے آیتوں کو بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور کرو۔
اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے کے لیے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جارہی ہے۔ جیسے ایک شخص کا باغ ہو جس میں طرح طرح کے پھل ہوں یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔ بوڑھا شخص محنت مشقت کرنے کے قابل نہ رہا ہو اور چھوٹے بچے بھی مدد تو کیا اپنا بوجھ بھی نہ اٹھا سکتے ہوں۔ اسی حالت میں تندو تیز ہوائیں چلیں اور اس کا سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ باغ کو آباد کرنے کے قابل ہو اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنیوالوں کا قیامت کے دن ہوگا ۔ نفاق اور ریاکاری کی وجہ سے ان کی سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی۔ اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت و فرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مثال کو ان مال دار لوگوں سے متعلق قراردیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔(بخاری: ۴۵۳۸) صدقہ ریاکاری سے، جتلانے سے، ایذا دینے سے جل جائے گا جب كہ جذبہ خیر کے ساتھ، دل کے جھکا ؤ کے ساتھ، دو گنا پھل ملے گا۔