ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ
پھر بیشک تمہیں اس زندگی کے بعد مرجانا (٣) ہے۔
ضرور مرنا ہوگا، یعنی تمہارا اس دنیا میں آنا بھی تمہارے اپنے اختیار میں نہ تھا بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا اور اگر اب تم دنیا میں رہنا چاہو اور مرنے سے بچنے کی کوشش کرو تو یہ بات بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کا قانون یہی ہے کہ تمہیں موت آکے رہے گی اور یہاں سے تمہاری اخروی زندگی کا آغاز شروع ہو جائے گا جیسا کہ نطفہ سے تمہاری دنیوی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ باالفاظ دیگر موت دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کی سرحد پر واقع ہے۔ موت سے اخروی زندگی کا آغاز کیسے؟ یعنی جس طرح نطفہ سے انسان بننے میں تمہارا اپنا کچھ بھی اختیار نہ تھا اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے مختلف مراحل طے کرا کے تمہیں اسی طرح زندہ پیدا کر دے گا۔ جس طرح پہلی بار کیا تھا، چنانچہ سورہ انشقاق میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسمیں کھانے کے بعد فرمایا: ﴿لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ﴾ (الانشقاق: ۱۸) ’’یعنی یہ مراحل تمہیں بہرحال طے کرنا ہوں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے پہلی تخلیق کے مراحل کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ نہ تو وہ انسان کے مشاہدہ میں آسکتے ہیں اور نہ انسان کی عقل ان مراحل کو سمجھ ہی سکتی ہے۔