بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربا، بے حد رحم کرنے والا۔
تعارف: اس سورت کا مرکزی مضمون اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے اور پوری سورت اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔ آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے پیغمبر کی بات مان لی، یقینا ایسے ہی لوگ دنیا وآخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان وزمین کی پیدائش، نباتات وحیوانات کی پیدائش اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ نظام عالم گواہ ہے۔ پھر انبیاء کے قصوں کے پیرائے میں سامعین کو چند باتیں سمجھائی گئی ہیں کہ جو دعوت آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم توحید اور آخرت کے بارے میں دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے اس سے مختلف آج کوئی نرالی چیز پیش نہیں کی جا رہی۔ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا، شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔ خاتمہ کلام پر مخالفین حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق اور اس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو، اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔ (تفہیم القرآن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ رب العزت نے جنت عدن کو پیدا کیا تو اس میں ایسی نعمتیں رکھیں جن کے متعلق نہ کسی کان نے کبھی سنا ہے، نہ کسی آنکھ نے ایسی نعمتیں دیکھیں ہیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان تمام نعمتوں کا خیال ہی گزرا ہے، تو اللہ نے جنت عدن سے کہا ’’ تَکَلِّمِیْ، فَقَالَتْ: ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَo‘‘ (الاحادیث المختارۃ:۱۲ و اسنادہ حسن لذاتہ)