يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے ایمان والو ! تم اپنے رب کے لیے رکوع (٣٩) کرو، اور سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو اور کار خیر کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ یہ خطاب انفرادی طور پر ہو اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اخروی انجام، اور کامیابی کے لیے تین کاموں کا سرانجام دینا نہایت ضروری ہے۔ (۱)نماز کی درست طور پر ادائیگی۔ (۲)خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ (۳) نیک اعمال کی بجا آوری۔ اور اگر یہ خطاب مجموعی طور پر بحیثیت امت سمجھا جائے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس قوم میں یہ صفات موجود ہوں گی ان کی اخروی کامیابی تو یقینی ہے ہی۔ ان کی دنیا میں بھی کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سورہ حج کی فضیلت: سورئہ حج کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو سجدے آئے ہیں (لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) بھی مقام سجدہ ہے۔ اس سورہ کا پہلا سجدہ تو متفق علیہ ہے۔ لیکن دوسرا سجدہ اختلافی ہے۔ سجدہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ یہاں ایمان لانے والوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ یہاں رکوع اور سجدہ کا اکٹھا لفظ آیا ہے اور جہاں یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں تو اس سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ارکان ہی نماز کے جز و اشرف ہیں اور جز واشرف بول کر اسے کل مراد لینا اہل عرب کا عام دستور ہے بلکہ بعض دفعہ قرآن میں بھی صرف رکوع یا صرف سجدہ کے لفظ سے بھی پوری نماز مراد لی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں وجوب سجدہ کے قائلین کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔