سورة الحج - آیت 46

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا وہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں تو ان کے ایسے دل ہوتے جن سے سمجھتے اور ایسے کان ہوتے جن سے سنتے، پس بیشک آنکھیں نہیں اندھی ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں پائے جاتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شعور و فکر کا منبع دماغ ہے یا دل؟ یہ تباہ شدہ بستیاں ان کے راستہ میں پڑتی ہیں، یہ لوگ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے، نہ یہ سوچتے ہیں کہ ان بستیوں کا ایسا انجام کیوں ہوا؟ مگر یہ باتیں سوچنے کے لیے تو دیدۂ بینا چاہیے اور وہ ان میں ہے نہیں۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے آنکھ کی بینائی کی نہیں بلکہ دل کی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ۵۱۷ میں ہوا تھا اس مضمون کو اپنے اشعار میں خوب بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے، کیا اپنے بڑھاپے اور اپنے نفس کی برائی سے بھی تو بے خبر ہے؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کرنا چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل نحواستہ کوچ کرنا ہی پڑے گا۔ کیا امیر ہو، کیا غریب، کیا شہری ہو کیا دیہاتی۔ دل کی بینائی کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عقل، فہم، فکر سوچ کو دل سے متعلق کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام قسم کے جذبات مثلاً محبت، ہمدردی، رحم، اخوت اور اس کے برعکس جذبات مثلاً نفرت، کینہ بغض اور حسد کا منبع دل کو قرار دیا ہے۔ ہر زبان کے محاورہ میں بھی دل ہی کو ان باتوں کا مرجع قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے طرف رجوع کرنے والا بنا دے۔ آمین