سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ تک نہ ان کا گوشت (٢٢) پہنچے گا اور نہ خون، صرف تمہارا تقوی اس تک پہنچے گا، اس نے جانوروں کو اس طرح اس لیے تمہارے تابع بنا دیا ہے تاکہ اللہ نے تمہیں جو راہ راست پر ڈالا ہے اس کا شکر بجا لاتے ہوئے تکبیر پڑھو، اور اے نبی ! آپ بھلا کام کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قربانی پر اللہ کی کبریائی بیان کرو: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قربانی کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام بڑائی سے لیا جائے۔ اسی لیے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق و رازق اسے مانا جائے قربانیوں کے گوشت اور خون سے اللہ کو کوئی نفع نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تو تمام مخلوق اور بندوں سے غنی اور بے نیاز ہے۔ جاہلیت کے دور کی ایک بیوقوفی یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے۔ اور یہ بھی دستور تھا کہ جب اللہ کے نام کی قربانی دیتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لا رکھتے اور خون کے چھینٹے کعبہ کی دیواروں پر ڈالتے۔ گویا ان کے خیال کے مطابق قربانی کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ اس کا گوشت اور خون پیش کر دیا گیا ہے۔ شان نزول: مسلمان ہوکر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقویٰ دیکھتا ہے۔ اسی کو قبول فرماتا ہے۔ اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں۔ (مسلم: ۲۵۸۴) اس لیے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آیا اس بندے نے جو قربانی کی ہے۔ وہ اللہ کی احسان مندی اور اس کا شکریہ بجا لاتے ہوئے شوق سے کی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کی نیت ہی خراب ہو اگر وہ موٹا تازہ جانور بھی قربان کر دے اور یہ سب دکھاوے کے لیے کرے تو آخر اس سے اسے کتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ خیرات، صدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے، اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی: ۱۴۹۳)