سورة الحج - آیت 31

حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

درآنحالیکہ تم لوگ اللہ کے لیے موحد بن کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ گویا آسمان سے گرتا ہے تو چڑیاں اسے فضا میں ہی اچک لیتی ہیں یا تیز ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دیتی ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حنیف کا لغوی معنی: حنفاء حنیف کی جمع ہے اور حنف کا معنی ہے تمام باطل راہوں کو چھوڑ ایک طرف مائل ہونا، یک رخا ہونا، یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہونا، یا یک طرفہ ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرنا مراد ہے۔ پرندے اُچک لیں۔ یعنی جس طرح بڑے بڑے پرندے چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر نوچ کھاتے ہیں۔ یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ وہ توحید کی بلندی پر فائز ہوتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے۔ اور اب وہ اپنے جیسے دوسرے مشرکوں کے ہتھے چڑھ گیا جو اسے کبھی ایک در پہ اور کبھی دوسرے در پہ جانے کا مشورہ دیں گے حتی کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بے ایمان کرکے ہی چھوڑیں گے چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’کافر کی روح کو جب فرشتے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ اور وہ وہیں سے پھینک دی جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۴/ ۲۸۷) اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی بذات خود بھی شرک کی ہی ایک قسم ہے جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ﴾ (الفرقان: ۴۳) ’’کیا آپ نے اُسے بھی دیکھا ہے جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔‘‘