ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
مذکورہ بالا باتیں لائق اہمیت ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں (١٨) کا احترام کرے گا تو اس کا یہ عمل صالح اس کے رب کے نزدیک اجر و ثواب کے اعتبار سے اس کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تمہارے لیے چوپایوں کو حلال کردیا گیا ہے، سوائے ان کے جن سے متعلق اس قرآن کی آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں، پس تم لوگ گندگی یعنی بتوں کی عبادت سے بچو، اور جھوٹ بولنے اور بہتان تراشی سے بچو۔
یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان۔ اب اور سنو! اللہ کی حرام کردہ اشیاء بھی ہیں اور شعائر اللہ بھی۔ یعنی ان سب چیزوں کی حرمت و احترام کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے اور تعمیر کعبہ کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسے شرکیہ اعمال و افعال اور بتوں کی نجاستوں سے پاک صاف رکھا جائے کیونکہ قریش مکہ نے ایسی نجاستوں کا بھی مطلق خیال نہ رکھا اور جو لوگ توحید کے قائل تھے ان کے بیت اللہ میں داخلہ پر پابندیاں لگا دیں۔ گویا اللہ کے گھر اور اس کے شعائر کی ہر طرح توہین کی۔ اس مقام پر حرمات سے مراد عموماً حج، عمرہ، کعبہ، قربانی اور احرام سے متعلق احکام ہیں، جیسے احرام کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا کرنے، شکار کرنے اور صحبت کرنے سے بچنا ہے اور ایسے احکام کا پورا پورا پاس رکھنا ہے اور یہ چیز ان کے حق میں اور اللہ کے ہاں بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے۔ چار بنیادی حرام اشیاء: اللہ تعالیٰ نے تمام چرنے والے چوپائے انسان کے لیے حلال قرار دیے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر پہلے کئی مقامات پر آچکا ہے اور وہ یہ ہیں۔ ۱۔ مردار: خواہ وہ جانور کسی بھی طریقہ سے مرگیا ہو۔ ۲۔ خون بالخصوص وہ خون جو ذبح کرتے جانور کے جسم سے نکلتا ہے۔ ۳۔ خنزیر کا گوشت، جس کی ہر چیز نجس اور اس کا استعمال ممنوع ہے۔ ۴۔ ہر وہ جانور یا چیز جو غیر اللہ کے نام پر مشہور کی جائے۔ جیسے مشرکین مکہ نے جو بحیرہ، وصیلہ، سائبہ اور حام قسم کے جانور حرام قرار دے رکھے تھے۔ یہ قطعاً اللہ کی طرف سے حرام کردہ نہیں ہیں۔ گندگی سے بچو: یعنی آستانوں کی الائشوں اور بتوں کی پرستش سے یوں بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے۔ اور اسے اس گندگی کے نزدیک جانے سے بھی گھن آتی ہے۔ قول الزور کا لغوی معنی: قول الزور کا لفظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ زور کے معنی صرف جھوٹ نہیں، بلکہ ہر وہ بات ہے جو حق سے ہٹی ہوئی ہو۔ قرآن کریم میں قول الزور کے مقابلہ میں قولاً سدیداً کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی ایسی بات جس میں کوئی رخنہ، ابہام، ہیرا پھیری اور پیچیدگی نہ ہو۔ پھر قول الزور کی ایک قسم شہادۃ الزور ہے۔ یعنی ایسی شہادت جس میں ہیرا پھیری سے کام لیا گیا ہو جس سے کسی ایک فریق کی حق تلفی ہو جائے اور اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں بڑے بڑے گناہ بتاؤں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! ضرورت بتائیے‘‘ فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا‘‘، ’’والدین کی نافرمانی کرنا‘‘، آپ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی الفاظ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری: ۶۲۷۳)