ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
پھر انہیں چاہیے کہ اپنے جسم کا میل صاف (١٧) کریں اور اپنی نذر پوری کریں، اور بیت عتیق یعنی خانہ کعبہ کا طواف کریں۔
احکام حج: یعنی دس ذوالحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حج کرنے والے حضرات حجامت بنوائیں، ناخن کٹوائیں، نہائیں دھوئیں اور راستے کی گرد اور میل کچیل دور کریں اور احرام کھول کر عام لباس پہن لیں، اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احرام کھولنے کے بعد احرام کی دوسری پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں مگر اپنی بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک کہ آدمی طواف افاضہ نہ کرلے جس کا ذکر اسی آیت کے آخر میں ہے (اس قدیم گھر کا طواف کریں) پھر اگر کوئی منت مانی ہوئی ہو تو اس کو پورا کریں جیسے اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔ بیت العتیق: کے معنی قدیم گھر کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق اور تقصیر کے بعد طوافِ افاضہ کرلیں، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا کبریٰ) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج کا آخری کام طواف ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ذوالحج کو منیٰ کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں پھر قربانی کی، پھر سر منڈوایا پھر لوٹ کر بیت اللہ آکر اس کا طواف کیا۔ صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہے۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کر دی گئی ہے۔ (بخاری: ۱۷۵۵، مسلم: ۱۳۲۸)