إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بیشک جن لوگوں نے کفر کی راہ (١٤) اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں سکونت پذیر اور باہر سے آنے والا دونوں برابر ہیں، اور جو کوئی اس میں اللہ کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے شرک و بدعت کی راہ اختیار کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
مسلمانوں پر کعبہ میں داخلہ کی پابندیاں فتح مکہ تک قائم رہیں: اس سے مراد کفار مکہ ہیں جنھوں نے مسلمانوں پر یہ پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ نہ وہ بیت اللہ میں نماز ادا کر سکتے ہیں، نہ طواف کر سکتے ہیں او رنہ حج و عمرہ کے ارکان بجا لا سکتے ہیں۔ ایک تو وہ خود مشرک اور کافر تھے پھر کعبہ کو بھی بتوں کی نجاستوں سے بھر رکھا تھا۔ اور مزید یہ کہ توحید پرستوں پر سب راہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ چودہ سو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں عمرہ کرنے آئے تو ان سے جنگ کی ٹھان لی، اور حدیبیہ کے مقام تک پہنچ کر ان کو روک دیا گیا۔ مسلمانوں پر یہ پابندیاں فتح مکہ تک جاری رہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب کفر کا زور ٹوٹ گیا تو یہ پابندیاں خود بخود ختم ہو گئیں ایسے لوگوں کے لیے ہی ارشاد ہوا ہے کہ انھیں آخرت میں درد ناک عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کا حصہ دار قرار دیا ہے۔ آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے ہے؟ وہ یہ کہ مسجد حرام جو اللہ نے سب کے لیے یکساں طور پر حرمت والی بنائی ہے مقیم اور مسافر کے حقوق میں کوئی کمی زیادتی نہیں رکھی، اہل مکہ بھی مسجد حرام میں اتر سکتے ہیں اور باہر والے بھی۔ (تفسیر طبری: ۱۸/ ۵۹۶) جن علماء نے مسجد حرام سے مراد پورا حرم لیا ہے ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ پورا حرم مکی سب مسلمانوں کے لیے یکساں حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے مکانوں اور زمینوں کا کوئی مالک نہیں۔ اسی لیے ان کی خرید و فروخت اور ان کو کرایہ پر دینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج و عمرہ کے لیے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے۔ وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں کسی کو ٹھہرنے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ اختیارات ہیں لہٰذا ان کو بیچنا اور کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے مثلاً منیٰ، مزدلفہ، اور عرفات کے میدان تو یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ حرم مکہ میں بیرونی مسافروں کے حقوق: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَام﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ’’یہ رعایت اس شخص کے لیے ہے۔ جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد حرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہو سکتا۔ یہاں لازماً مسجد حرم سے مراد حرم مکہ ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا: ﴿وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۷) ’’اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ سوال کیا حرم میں زمین اور مکان کی خرید و فروخت، اور ملکیت وراثت بھی جائز ہے کہ نہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ میں مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت، اور حقوق بیع و اجارہ قائم تھے۔ جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے۔ اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر قبضہ کر لیا، پھر اسے بیچ بھی دیا۔ چنانچہ حجۃ الو داع کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ اس میں رہیں۔ (بخاری: ۴۱۱۵) حرم مکہ میں جائیداد کی خرید و فروخت کا جواز؟: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے اس شرط پر خریدا کہ اگر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہوگی۔ بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرایہ کے مل جائیں گے۔ (بخاری: ۴۲۸۲) ان سب امور کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور منیٰ میں مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے، اور امام بخاری کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خرید و فروخت اور وراثت وغیرہ سب کچھ جائز ہے۔ حرم مکہ میں کجروی اختیار کرنا: یعنی جو شخص جان بوجھ کے مکہ میں بے دینی اور شرارت کی کوئی بات کرے گا یا اس کے احترام کو ملحوظ نہ رکھے گا تو اس کو کسی دوسرے مقام پر یہی جرائم کرنے کی بہ نسبت دگنی سزا ملے گی۔ حرم مکہ میں ممنوعہ کام: (۱) حرم پر فوج کشی نہ کی جائے نہ وہاں جدال و قتال کیا جائے حتیٰ کہ بلا ضرورت کوئی ہتھیار اُٹھانا بھی ممنوع ہے، اگر کوئی مجرم بھی حرم میں پناہ لے لے تو جب تک وہ حرم میں ہے اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ (۲) حرم مکہ کے جانور محفوظ و مامون ہیں نہ ان کا شکار کیا جا سکتا ہے نہ اور انھیں شکار کے لیے ہانکا جا سکتا ہے۔ البتہ موذی جانوروں کو حرم میں بھی مارنے کی اجازت ہے مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ۔ (۳) حرم کے پودے، گھاس، درخت وغیرہ بھی محفوظ و مامون ہیں۔ البتہ بعض اقتصادی ضروریات کے پیش نظر اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دی گئی۔ (۴) حرم مکہ سے کوئی گری پڑی چیز اٹھانا روا نہیں، اِلَّا یہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے۔