أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ تمام مخلوقات جو آسمانوں اور زمین (١١) میں ہے، اور شمس و قمر اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے بنی نوع انسان اللہ کے لیے سجدے کر رہے ہیں اور بہت سے انسانوں کے لیے عذاب لازم ہوگیا ہے، اور جسے اللہ رسوا کردے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا ہے، بیشک اللہ جو چاہتا ہے اسے کر گزرتا ہے۔
چاند، سورج، ستارے سب سجدہ ریز: عبادت کا مستحق صرف وہی وحدہٗ لا شریک ہے۔ اس کی عظمت کے سامنے ہر چیز سر جھکائے ہوئے ہے خواہ خوشی سے یا ناخوشی سے، ہر چیز کا سجدہ اپنے طریق پر ہے۔ چنانچہ سائے کا دائیں، بائیں ہونا بھی اللہ کے سامنے سر بسجود ہونا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَ الشَّمَآىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ﴾(النحل: ۴۸) ’’کیا انھوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیکھا؟ کہ اس کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ کے سامنے سر بسجود ہوتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ آسمانون کے فرشتے، زمین کے حیوان، انسان، جنات، پرند، چرند سب اس کے سامنے سر بسجود ہیں اور اس کی تسبیح اور حمد کر رہے ہیں۔ سورج چاند ستارے بھی اس کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں۔ ان تینوں چیزوں کو الگ اس لیے بیان کیا گیا کہ بعض لوگ ان کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ صحیحین میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ کو علم ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ نے فرمایا: یہ عرش کے تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر اس سے اجازت طلب کرتا ہے۔ وقت آ رہا ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا۔ (بخاری: ۳۱۹۹، مسلم: ۱۵۹) ساری کائنات میں انسان اور جن ہی مکلف مخلوق ہیں اور انھیں کو قوت ارادہ اور اختیار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اکثر انسان بھی اپنی خوشی، رضا و رغبت سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں جبکہ کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جو اس سے محروم ہے۔ تکبر کرتے ہیں، سر کشی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یقینا اس سرکشی کی سزا عذاب الیم کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب انسان سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہٹ کر رونے لگتا ہے کہ افسوس ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا۔ اس نے سجدہ کر لیا اور جنتی ہو گیا جبکہ میں نے انکار کر دیا تو جہنمی بن گیا۔ (مسلم: ۸۱) سورت الحج میں دو سجدہ تلاوت ہیں آیت (۱۸) میں پہلا سجدہ ہے، اور یہی سجدہ متفق علیہ ہے جو ہر پڑھنے والے اور سننے والے کو ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی کائنات کی جملہ اشیاء کے ساتھ سجدہ میں ان کے ہم آہنگ اور شریک ہو جائے۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا سورت حج کو دو سجدوں کی وجہ سے باقی تمام سورتوں پر فضیلت حاصل ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اور جو یہ نہ کرنا چاہے وہ ان کی تلاوت ہی نہ کرے۔ (ترمذی: ۵۷۸، ابو داؤد: ۱۴۰۲)