وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور بعض لوگ (٦) اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں، اگر انہیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انہیں آلیتی ہے تو کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں، اور اپنی اور آخڑت دونوں گواں دیتے ہیں، یہی کھلا نقصان ہے۔
حَرْفٍ کا معنی ہیں کنارا، یعنی کفرو اسلام کی سرحد پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ اسلام میں داخل ہوتا ہی نہیں اگر اسلام لانے میں کوئی مادی فائدہ پہنچنے کی توقع ہو تو پھر اسے اسلام گوارا ہے۔ کیونکہ اس کی نیت صرف دنیوی مفادات کی ہوتی ہے۔ ملتے رہیں تو ٹھیک ہے بصورت دیگر وہ پھر اپنے آبائی دین یعنی کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ ایسے لوگ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے خسارہ میں رہتے ہیں۔ دینی نقصان تو واضح ہے کہ ایسے لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کیے جائیں گے اور دنیاوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ کافر انھیں اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان، دونوں طرف سے ان کی ساکھ تباہ ہو جاتی ہے، اور بمصداق ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ انھیں کبھی بھی پذیرائی اور عزت نصیب نہیں ہوتی۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک مذبذب شخص کا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص مدینے آتا، اگر اس کے گھر بچے ہوتے، اسی طرح جانوروں میں برکت ہوتی، تو کہتا، یہ دین اچھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کہتا یہ دین برا ہے۔ بعض روایات میں یہ مضمون نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے۔ (بخاری: ۴۷۴۲)