يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو ! ہم نے تمہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو (347) وہ دن آنے سے پہلے جب نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی، اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی، اور نہ کوئی سفارش، اور کفر کرنے والے (اپنے اوپر ہی) ظلم کرنے والے ہیں
انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت: مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اگر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے تو یہ بات انسان کے لیے فتنہ اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اے مسلمانو! جس دین پر تم ایمان لائے ہو اس کی راہیں ہموار کرنے اور اس کے قیام کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔معاشرہ کے ناتواں اور محتاج افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی مال كی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہی صدقات آخرت میں انسان کی نجات کا سبب بنیں گے۔ انفاق سے مراد: مصلحتوں کی قربانی دینا ہے (۲) دین کی طرف بڑھنے کا نام ہے۔ (۳) مال۔ جان۔ صلاحیت کی قربانی دینا، اسلام کو انفاق کی قیمت پر قبول کرنا ہے۔ ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہ سکتیں دنیا کی محبت کو ختم کرنے کے لیے مسلسل انفاق کا حکم دیا گیا ہے۔ انفاق کا مقصد سمجھ آجائے تو: (۱)اسلام کے راز کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ (۲) انسان اور اس کے مقصد میں تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ (۳) انسان اللہ کے ساتھ سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ (۴) انسانیت کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ مخلص ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لوٹا دو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے احساس، پہچان، تعلق، حقیقی رابطہ اللہ سے قائم ہوتا ہے۔ انسان رب کو پالیتا ہے۔ بھٹکتا نہیں جنت تک پہنچ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن انسان اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: ۵/ ۴۹، ح: ۳۰۷۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اللہ کے سامنے سے نہیں ہٹیں گے جب تک کہ ان سوالوں کے جواب نہ دے لیں گے۔ (۱) عمر کن کاموں میں گزاری۔ (۲)مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۳) جوانی کو کن کاموں میں کھپایا۔ (۴) علم کے بارے میں کہاں سے لیا اور کہاں خرچ کیا۔(ترمذی: ۲۴۱۷) اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والا: (۱)اندھیرے میں رہتا ہے۔ (۲) شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ (۳) خواہش پرست ہو جاتا ہے چند ظاہری کاموں کو آخرت کی کامیابی سمجھ لیتا ہے۔ مثلاً نماز پڑھ لینا، چیرٹی کے کام کرلینا وغیرہ انفاق نہ کرنے سے انسان نیکی سے دور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ توجہ دلاتے ہیں کہ اگر اب یہ کام نہ کیا تو پھر دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ نہ دوستی ہوگی نہ سودے بازی، نہ سفارش کام آئے گی۔ اگر انسان کا اندر پگھل جائے تو انفاق کرتے دیر نہیں لگتی۔ اللہ تعالیٰ انفاق كی ترغیب دیتے ہیں کہ پھر دوسری دنیا میں تم کیا کرو گے۔ اس کی تیاری کرلو، رب تعالیٰ ستّر ما ؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والے ہیں۔ رب نے یہ سب بتا دیا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے والے کفر کرتے ہیں۔ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ افضل صدقہ کونسا: کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اجر کے لحاظ سے کونسا صدقہ بڑا ہے ۔ آپ نے فرمایا: جو بیماری سے پہلے تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو، دولت کی اُمید رکھتا ہو، لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آجائے تو کہنے لگے ’’اتنا فلاں کو دے دو۔‘‘ حالانکہ اس وقت مال پر حق اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘(بخاری: ۲۷۴۸) یعنی قیامت کے دن تمہارے ہی صدقات کام آئیں گے۔ دوستیاں اور سوداگریاں اور سفارشیں کام نہیں آئیں گی۔