وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
اور ہم نے آپ کو سارے جہاں والوں کے لیے سراپا رحمت (٤٠) بنا کر بھیجا ہے۔
جہاں والوں پر اللہ کی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور آپ کی بعثت دراصل پوری نوع انسانی کے لیے رحمت ہے۔ یعنی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گا۔ اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا، نتیجتاً دنیا اور آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگیا۔ اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین اور دنیا کی سعادتوں سے انسانیت کو ہم کنار کرنے کے لیے آئے ہیں۔ بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اعتبار سے بھی جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے یہ اُمت مکمل تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور اُمتیں حرف غلط کی طرح مِٹا دی جاتی رہیں۔ اُمت محمدیہ پر اس طرح کا عذاب کبھی نہیں آئے گا اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بددعا نہ کرنا، یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا ایک حصہ تھا۔ علاوہ ازیں کافروں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باعث رحمت اس طرح بھی تھی جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَ اَنْتَ فِیْہِمْ) یعنی جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔ جہان والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر تکلیفیں سہ سہ کر بحکم الٰہی خالص توحید کی دعوت دیتے رہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ روشن کی اور جب اس کی روشنی اردگرد پھیل گئی تو کیڑے اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔ اب وہ شخص انھیں آگ سے دور ہٹانے لگا (تاکہ جلنے سے بچ جائیں) لیکن وہ مانتے ہی نہیں اور اس آگ میں گھستے، گرتے اور مرتے جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمھیں تمھاری کمروں سے پکڑ کر تمھیں آگ سے دور کھینچتا ہوں کہ دوزخ سے بچ جاؤ لیکن لوگ ہیں کہ سنتے ہی نہیں اور اس میں گرے پڑتے ہیں۔ (بخاری: ۶۴۸۳)