وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ
اور لوگ آپس میں (دینی اعتبار سے) ٹولیوں میں بٹ گئے اور سب کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔
یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہو گیا، جب کہ انبیاء اور رسل کے ماننے والے بھی باہم تقسیم ہو گئے، کوئی یہودی ہو گیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور بدقسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گئیں او ریہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے عموماً مذہبی پیشوا ہوتے ہیں اور ان کا مقصد عموماً حصول مال ہوتا ہے۔ یہ اپنے مریدوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انبیاء اور ہمارے بزرگان سب ہی غیب کی خبریں جانتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے مریدوں کے احوال پر حاضر و ناظر ہوتے ہیں خواہ زندہ ہوں یا فوت شدہ، جب ان سے فریاد کی جائے تو وہ بھی لوگوں کی فریادیں سنتے اور ان کی امدادکو پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر، حاجت روا او رمشکل کشا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ان سب کافیصلہ جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گے تو وہیں ہو گا۔ نیک کام کرنے والے کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے، ایسے اعمال کی ہم قدر دانی کرتے ہیں ایک ذرے کے برابر ہم ظلم روا نہیں رکھتے، تمام اعمال لکھ لیتے ہیں کوئی چیز نہیں چھوڑتے۔