وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
اور ایوب (٢٧) نے جب اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف دہ بیماری لاحق ہوگئی ہے اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔
سیدنا ایوب علیہ السلام کی بیماری اور صبر: کتاب و سنت نے سیدنا ایوب علیہ السلام کی جس خصوصیت سے ہمیں متعارف کرایا ہے وہ آپ علیہ السلام کا صبر ہے۔ آپ علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ نہایت خوش حالی کا دور تھا۔ مال کی سب اقسام، اولاد، بیویاں، جائیداد غرض یہ سب کچھ وافر مقدار میں عطا ہوا تھا۔ اور آپ علیہ السلام کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ اس دور میں آپ علیہ السلام ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لاتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو دوسری طرح آزمانا چاہا۔ آپ علیہ السلام پر ابتلا کا دور آیا کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی اور اپنا یہ حال تھا کہ کسی طویل بیماری میں مبتلا ہو گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ لوگوں نے اپنی بستی سے باہر نکال دیا۔ اس ابتلا کے طویل دور میں آپ علیہ السلام نے صبر و استقامت کا ایسا بے مثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ آپ علیہ السلام کی ابتلا کا دور ۱۸ سال ہے۔ پھر جب اللہ سے اپنی بیماری کے لیے دعا کی تو اس دعا میں شکوہ شکایت کا نام نہیں۔ عرض مدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انتہائی صابر، قانع اور خود دار آدمی اپنے مالک کی کوئی بات یاد کررہا ہو۔ کہا تو صرف اتنا کہا کہ پروردگار! میں طویل مدت سے بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے۔ پھر صالح لوگوں کا، پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا۔ (ترمذی: ۲۳۹۸) چشمہ کا ظہور اور اس میں نہانے سے صحت کی بحالی: جب سیدنا ایوب علیہ السلام اس صبر کے امتحان میں بھی پوری طرح کامیاب ہوگئے تو رحمت الٰہی جوش میں آگئی، آسمان سے ندا آئی کہ اے ایوب علیہ السلام اپنی ایڑی زمین پر مارو پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ چشمہ پھوٹ پڑا، اس پانی کو پی بھی لو اور اسی سے نہا بھی لو۔ آپ علیہ السلام کی بیماری جلد کی بیماری تھی جو اس طرح پانی پینے اور نہانے سے جلد ہی دور ہو گئی اور جتنا مال و دولت اور آل اولاد اللہ نے آپ کو پہلے عطا فرمائی تھی اس سے دگنی عنایت فرما دی اور یہ اللہ کی رحمت اور آپ علیہ السلام کے صبر کا پھل تھا۔