سورة الأنبياء - آیت 68

قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگوں نے کہا تم لوگ اسے جلا دو، اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کرسکتے ہو تو کر گزرو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں پھینکنا: عقلی میدان میں جب قوم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نادم اور لاجواب ہوگئی تو اب ’’ڈنڈے کے استعمال‘‘ کی باتیں ہونے لگیں۔ جہلا کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب دلیل و حجت کے میدان میں پٹ جائیں تو ضد پر اتر آتے ہیں اور اپنی اکثریت کے بل بوتے پر قوت کے استعمال پر اُترتے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم کا باپ آزر خود بت تراش، بت فروش اور نمرود بادشاہ کا درباری مہنت تھا۔ اب اگر وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بات مانتا تو اس کا روزگار، اس کی آمدن کے ذرائع اور دربار میں اس کا مرتبہ و مقام سب کچھ ختم ہوتا تھا۔ لہٰذا قوم کے لوگوں سے بڑھ کر آزر ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے دین کا دشمن بن گیا تھا۔ اب ان لوگوں نے متفقہ طور پر طے کیا جیسے بھی ہو سکے اپنے مشکل کشاؤں کی عزت و قار کو بچاؤ اور اس کا بہتر حل یہ ہے کہ ابراہیم کو بھڑکتی آگ میں جلا کر اسے صفحہ ہستی سے ختم کر دو۔ چنانچہ اس غرض کے لیے سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا الاؤ تیا رکیا گیا۔ اور ایک منجنیق کے ذریعے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس کے اندر پھینک دیا گیا۔ آگ گلستان بن گئی: مفسرین کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو الاؤ میں ڈالا جانے لگا تو جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: ’’کہو تو آپ کی مدد کروں۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ’’مجھے تمھاری مدد کی ضرورت نہیں مجھے میرا اللہ کافی ہے۔‘‘ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا: ’’اچھا اپنے اللہ سے دعا ہی کرو۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’میرا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور مجھے یہی کافی ہے۔‘‘