فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ
پھر انہوں نے اپنے دل میں اس بات پر غور کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ درحقیقت تم لوگ ظالم ہو۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے۔ اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر کہنے لگے، واقعی ظالم تو تم ہی ہو جو اپنی جان سے دفع مضرت اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر بھی قادر نہیں، وہ مستحق عبادت کیونکر ہو سکتا ہے۔ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی۔ ترک حفاظت پر ہر ایک نے دوسرے کو ظالم کہا پھر ابراہیم علیہ السلام تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔ عاجزی، حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انھیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا۔