سورة الأنبياء - آیت 57

وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ کی قسم ! جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف کارروائی کروں گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس کا مقصد بعض لوگوں کو سنانا تھا (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ) ان کی عید کا جو دن مقرر تھا۔ جب سب لوگ جانے لگے تو پہلے اپنے بتوں کے سامنے نذر و نیاز کی مٹھائیاں رکھیں اور ابراہیم علیہ السلام کو بھی میلہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہہ دیا کہ میں تو بیمار ہوں لہٰذا مجھے اپنے ساتھ لے جا کر اپنا مزا خراب نہ کرو اور مجھے یہیں رہنے دو۔ جب یہ سب لوگ چلے گئے توحضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے یہ سنہری موقع تھا آپ نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر انھیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، اور کلہاڑا اس کے کندے پر رکھ دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ سب کارستانی اس بڑے بت کی ہے۔ (لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ) تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔