وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور ان سے ان کے نبی نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے (341) کہ وہ ہمارا بادشاہ بن جائے، جبکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہت کے حقدار ہیں، اور اس کے پاس مال بھی زیادہ نہیں ہے، نبی نے کہا کہ اللہ نے اسے تمہارے مقابلے میں چن لیا ہے اور علم و جسم میں اسے حظ وافر دیا ہے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے، اور اللہ وسعت و کشادگی والا اور علم والا ہے
بادشاہت کے جواز کی دلیل: اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرمادیتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کے لیے بادشاہ مقرر کردیا جو کہ ایک تیس سالہ نوجوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا اس پر بھی کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑدیا کہ طالوت کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں تم سے زیادہ موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے۔