سورة الأنبياء - آیت 46

وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر انہیں آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی لگ جاتا ہے تو کہنے لگتے ہیں ہائے ہماری بد نصیبی، ہم بیشک اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی ان گنہگاروں پر ایک ادنیٰ سا بھی عذاب آجائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اس وقت بے ساختہ اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے۔ اس اعتبار سے (مَوَازِیْنَ) کا لفظ جو بمعنی ترازوں کی جمع ہے۔ اس دن کسی پر کسی طرح کا ظلم نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لیے کافی ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ﴾ (النساء: ۴۰) اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے۔