خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ
انسان جلد باز (١٦) پیدا کیا گیا ہے میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا، پس تم لوگ (مجھ سے ان کا) جلد مطالبہ نہ کرو
جلد باز انسان: یعنی جلد بازی انسان کی سرشت میں داخل ہے وہ چاہتا ہے کہ جو خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے وہ جلد از جلد وقوع پذیر ہو جائے خواہ یہ خواہش اچھی ہو یا بُری۔ چنانچہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام کے سلسلہ میں قرآن میں مذکور وعید سنائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرو گے، ان کا مذاق اڑاؤ گے یا اس کا راستہ روکو گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا جو سابقہ اقوام پر آچکا ہے۔ اب کافر یہ سوچتے تھے کہ اس دعوت کا علی الاعلان انکار بھی کر رہے ہیں، مسلمانوں پر سختیاں بھی کر رہے ہیں اور اتنی مدت گزر چکی ہے لیکن ابھی تک ہمارا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا لہٰذا اب وہ بے باک ہو کر کہنے لگے کہ یہ روز روز کی تکرار چھوڑو اور جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو، وہ لے کیوں نہیں آتے، اورممکن ہے کہ بعض مسلمانوں کو بھی یہ خیال آتا ہو کہ ان ظالموں پر اگر فوراً عذاب آجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہر کام کا میرے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے اور وہ وقت معین ہے۔ لہٰذا اپنے وقت پر تمھیں یہ نشانیاں دکھا دی جائیں گی۔ جلدی نہ مچاؤ، دیر ہے اندھیر نہیں، مہلت ہے بھول نہیں، اور ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی داغ بیل آپ کے واقعہ ہجرت سے ہی پڑ گئی تھی۔