سورة الأنبياء - آیت 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ اس کی سرکوبی کردیتا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے باطل کا وجود ختم ہوجاتا ہے، اور جو کچھ تم اللہ کے بارے میں کہا کرتے ہو وہ تمہاری تباہی لاکر رہے گی۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تخلیق کائنات کا مقصد: تخلیق کائنات کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیر و شر کے درمیان جو تصادم ہے۔ اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجا نکل جاتا ہے۔ اور وہ چشم زدن میں نابود ہو جاتا ہے۔ یعنی رب کی طرف تم جو بے سروپا باتیں منسوب کرتے ہو یا اس کی بابت باور کراتے ہو (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے۔ ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ باتیں تمھاری ہلاکت کا باعث ہیں کیونکہ اسے کھیل تماشا سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے جس کا نتیجہ بالآخر تمھاری تباہی و بربادی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ ان بتوں کو کچو کے مارتے جاتے اور فرماتے حق آگیا اور باطل چلا گیا۔ (بخاری: ۴۲۸۷)