سورة الأنبياء - آیت 17

لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر ہم دل بہلاوے کے لیے (بیوی یا اولاد) بنانا چاہتے، تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ نے یہ نظام کائنات کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے۔ زمین میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لیے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر رخصت ہو جائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات پس یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کادرندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھااور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے بادشاہ اور اُس کے درباری اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا ایسی بات ہرگز نہیں اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو ا س کے کئی اور بھی طریقے ہو سکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی تھی یعنی اپنے پاس ہی کچھ چیزیں کھیل کے لیے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی کیا ضرورت تھی۔