فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ
پس جب انہیں ہمارے عذاب کا احساس ہوا تو ان بستیوں سے بھاگنے لگے۔
احساس کے معنی میں حواس کے ذریعے سے ادراک کرلینا۔ یعنی جب انھوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کر لیا، تو اس سے بچنے کے لیے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزا کے طور پر کہا۔ یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمھیں حاصل تھیں جو تمھارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر تم فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے، اور عذاب کے بعد تمھارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کسی طرح بیتی اور کیوں بیتی۔ یہ سوال بطور طنزو مذاق کے ہے ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی حالت میں ہی کب رہتے تھے۔