أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (337) جو اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں موت کے خوف سے نکل بھاگے، تو اللہ نے ان سے کہا کہ تم مرجاؤ، پھر اللہ نے انہیں زندہ کیا، بے شک اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، لیکن اکثرت لوگ شکر گذار نہیں ہوتے
یہ واقعہ گزشتہ کسی اُمت کا ہے جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ قرار دیا گیا ہے اور اس پیغمبر کا نام جس کی دعا سے انھیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایا، حزقیل علیہ السلام بتلایا گیا ہے۔ یہ لوگ جہاد میں قتل کے ڈرسے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے انھیں مارکر (۱)ایك تویہ بتلایا کہ اللہ کی تقدیر سے بچ کر تم کہیں نہیں جاسکتے۔ (۲) دوسرے یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے۔ (۳) تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اور وہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔