بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ ان ظالموں نے کہا کہ (یہ قراان) پراگندہ خوابوں کی باتیں (٥) ہیں، بلکہ اس نے گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ ایک شاعر ہے، پس وہ ہمارے لیے ایک نشانی لے کر آئے، جس طرح گزشتہ انبیا ( نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے۔
یہاں کفار کی ضد، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان کی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں، کسی بات پر جم نہیں سکتے، کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ خواب اور بے معنی باتیں کہتے ہیں کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا از خود گھڑ لیا ہوا بتاتے ہیں۔ خیال کریں کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا کیا مستقل مزاج کہلانے کا مستحق ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اچھا اگر یہ نبی سچا ہے تو پھر حضرت صالح کی طرح کوئی اونٹنی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے۔