كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا
(اے میرے نبی) ہم اسی طرح آپ کو گزشتہ قوموں کی خبریں (٣٨) سناتے رہتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے قرآن دیا۔
سورہ طٰہٰ کا آغاز بھی ذکر سے کیا گیا تھا یعنی ہم نے یہ ذکر (قرآن) اس لیے نہیں نازل کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں بلکہ یہ تو ڈرنے والوں کے لیے یاد دہانی ہے اور خاتمہ پر بھی اسی ذکر کو ذکر کر رہے ہیں۔ سب سے اعلیٰ کتاب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اصلی رنگ میں آپ کے سامنے بیان ہوا ہے۔ ایسے ہی اور بھی گزشتہ حالات آپ کے سامنے ہم ہو بہو بیان فرما رہے ہیں۔ ہم نے تو آپ کو قرآن عظیم دے رکھا ہے۔ باطل جس کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ آپ حکمت وحمد والے ہیں۔ کسی نبی کو کوئی کتاب اس سے زیادہ کمال والی، اور اس سے زیادہ جامع، اس سے زیادہ بابرکت والی نہیں ملی۔ ہر طرح سب سے اعلیٰ کتاب یہی کلام شریف ہے۔ جس میں گزشتہ کی خبریں، آئندہ کے امور اور ہر کام کے طریقے مذکور ہیں۔ اسے نہ ماننے والا، اس سے منہ پھیرنے والا، اس کے احکام سے بھاگنے ولا، اس کے سوا کسی اور میں ہدایت کو تلاش کرنے والا گمراہ ہے اور جہنم کی طرف جانے والا ہے۔ قیامت کو وہ اپنا بوجھ آپ اُٹھائے گا۔ قیامت کے دن بوجھ کو مادی شکل دے دی جائے گی۔ قرآن کے ساتھ جو بھی کفر کرے گا وہ جہنمی ہے۔ کتابی ہو یا غیر کتابی، عجمی ہو یا عربی، اس کا منکر جہنمی ہے۔ پس اس کا متبع ہدایت والا اور اس کا مخالف ضلالت و شقاوت والا ہے۔ جو یہاں برباد ہوا، وہ وہاں دوزخی ہوا۔ اس عذاب سے اسے نہ تو کبھی چھٹکارا ہوگا اور نہ وہ اس سے بچ سکے گا۔ بُرا بوجھ ہے جو اس دن ان پر ہوگا۔