فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي
تو موسیٰ اپنی قوم کے پاس غصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے لوٹے، کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا اللہ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا، کیا عہد و میثاق کی مدت لمبی ہوگئی تھی، یا تم نے خود ہی چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہوئی ہوجائے، اس لیے تم لوگوں نے مجھ سے کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی۔
موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر جب واپس آئے تو سخت غضب ناک تھے آپ نے آتے ہی اپنی قوم سے پے در پے تین سوال کیے ایک یہ کہ اللہ نے جو تمھاری ہدایت کے لیے کتاب دینے کا وعدہ فرمایا تھا تو یہ گمراہی کی راہ تم نے از خود کیوں اختیار کی؟ کیا تمھیں اللہ کی ہدایت پسند نہیں تھی؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اللہ نے جتنی مدت بعد کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا اس میں کچھ تاخیر ہو گئی تھی یا طویل مدت گزر چکی تھی اور تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے کہ کب ہدایت آتی ہے۔ آتی بھی ہے یا نہیں اس بنا پر تم نے خود ہی ایک راہ تجویز کر لی۔ اور اگر یہ دونوں باتیں درست نہیں تو پھر کیا تم ایسے شرکیہ کام کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہو یہ گؤ سالہ پرستی کا مرض ابھی تک تمھارے دلوں سے نکلا نہیں؟