سورة طه - آیت 67

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو موسیٰ اپنے دل میں خوف محسوس کرنے لگے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بذریعہ وحی کامیابی کی بشارت: قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ جادوگروں نے بہت بڑا جادو پیش کیا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ان جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں لوگوں کے سامنے حرکت کر رہی تھیں سارا میدان سانپوں سے بھر گیا اور آپس میں گڈمڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے اس منظر نے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ فرعون اور اُس کے خاص درباری جادوگروں کے کارنامے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے اور ان کی داد دے رہے تھے، یہ صورتِ حال دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام دل ہی دل میں ڈرنے لگے تھے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ لوگ ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور باطل میں پھنس جائیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو۔ اور بشارت بھی سنائی کہ تم ہی کامیاب رہو گے۔ آپ نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بے مثال اژدھا بنی گئی۔ جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے اس نے سب کے دیکھتے دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے، سب کو ہڑپ کر لیا اب سب پر حق واضح ہو گیا، معجزے اور جادو میں تمیز ہو گئی۔ حق و باطل میں پہچان ہو گئی سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی۔ فی الواقع جادوگروں کی چالیں غالب نہیں آ سکتیں۔ جادوگروں کا ایمان لانا: جادوگروں نے جب یہ دیکھا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے۔ وہ جادو کے فن میں ماہر تھے بیک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے۔ جس کے فرمان اٹل ہیں جو کچھ وہ چاہے، اس کے حکم سے ہوجاتا ہے۔ اس کا اتنا کامل یقین انھیں ہو گیا کہ اسی وقت اس میدان میں سب کے سامنے، بادشاہ کی موجودگی میں اللہ کے سامنے سربسجود ہو گئے اور پکار اُٹھے کہ ہم موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب پر ایمان لے آئے۔ سبحان اللہ صبح کو جادوگر اور کافر تھے اور شام کو پاکباز، مومن اور راہِ خدا کے شہید تھے۔ تفسیر طبری میں ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار کی یا انیس ہزار کی یا پندرہ ہزار کی یا بارہ ہزار کی۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے، اللہ تعالیٰ نے انھیں جنت دکھا دی اور انھوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (تفسیر طبری)