فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ
پھر فرعون اٹھ کر چلا گیا اور اپنے تمام داؤ پیچ جمع کر کے دوبارہ آیا۔
یہ مقابلہ صرف جادوگروں کی ہار جیت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ یہ دراصل فرعون کے برسر اقتدار رہنے یا نہ رہنے کا مسئلہ تھا۔ لہٰذ املک بھر کے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کے لیے اس نے اپنے مقدور بھر جتن کر لیے اور وعدہ کے دن فرعون ان جادوگروں اور اپنے لاؤ لشکر سمیت میدان مقابلہ میں بروقت پہنچ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان کی زینت اور عید کا دن عاشورہ کا تھا۔ یاد رہے کہ انبیاء علیہم السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف اور واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے۔ اس لیے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے۔ (تفسیر طبری: ۱۸/ ۳۲۳) وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے مہلت چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انکار کردیا۔ اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو۔ فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی۔ (ابن کثیر: ۳/ ۴۱۱)