قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ
فرعون نے پوچھا تو گزشتہ مشرک قوموں کا انجام کیا ہوگا۔
فرعون کا دوسرا سوال کہ پہلی اُمتیں کس حال میں ہیں۔ سیدنا موسیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے ۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے۔ وہ اس کے مطابق ان کو جزاوسزا دے گا۔ پھر اس کا علم ہر چیز کو اس طرح محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی۔ نہ وہ بھول ہی سکتا ہے، جبکہ مخلوق کے علم میں دونوں ہی نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم کل پر محیط نہیں بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ سیدنا موسیٰ اور فرعون کا پہلا مکالمہ غالباً یہاں ختم ہو رہا ہے اور آگے توحید کے دلائل اور پند و نصائح پیش کیے جا رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور سب لوگوں کے لیے ہیں۔